Waseem khan

Add To collaction

01-May-2022 لیکھنی کی کہانی ۔ آں چست از روز میری قسط 12

آں چست
از روز میری 
قسط نمبر12

الجھن کی بندش میں وہ اپنے روم کی طرف ہلکے قدم رکھ رہی تھی۔
روم کی دہلیز پہ قدم رکھا تو شہریار کو بیڈ پہ موجود پایا' بھینی مسکراہٹ اسکے لبوں پہ رینگی جو چند لمحوں میں ہی رخصت ہوئی۔
"حرا"۔    شہریار نے فون سائیڈ پہ رکھتے اسے خوش دلی سے پکارا۔
"جی"۔    حرا شہریار کے قریب آتے ہوئے بولی۔
"ادھر آو۔۔۔ میرے پاس بیٹھو"۔    حرا کا ہاتھ پکڑتے شہریار نے اسے اپنے سامنے بٹھایا۔
"جی؟"۔    تا ہنوز سوچ میں گھری حرا نے نظر شہریار کے چہرے پہ ٹکائی۔
"کیا ہوا ہے؟ کوئی پریشانی ہے؟۔ میں تمھیں کافی دنوں سے اوبزرو کر رہا ہوں تم کچھ کھوئی کھوئی سی رہنے لگی ہو جیسے کوئی بات کرنا چاہتی ہو مگر کر نہیں پا رہی"۔    حرا کا ہاتھ ہاتھوں میں لیتے شہریار نے محبوبیت سے کہا۔   "کوئی بات تمھیں پریشان کر رہی ہے؟ مجھے بتاو ہم مل کر اس مسئلے کا حل نکالیں گے یا اس پرابلم کا سولوشن ڈھونڈ لیں گے"۔    
"شہریار کہہ تو ٹھیک رہے ہیں آخر کب تک یوں ڈر ڈر کر رہیں گے ہم؟ ایسے تو زندگی نہیں گزرتی"۔    حرا نے سوچ ونت سے کام لیا۔
"شہریار وہ اح۔۔۔۔"۔     
"حرا بھابی"۔    حرا نے زبان کو حرکت دی ہی تھی کہ چوکھٹ سے آواز ابھری۔
"احد"۔     حرا بوکھلاہٹ میں بیڈ سے اٹھتے دروازے کی جانب گھومی۔
"ایم سوری بھائی آپ کو ڈسٹرب کیا اور بنا ناک کیئے چلے آیا"۔   شہریار کو دیکھتے احد نے معذرت طلب کرتے بات سنبھالنے کی کاوش کی۔
"کوئی بات نہیں احد"۔    شہریار مسکرا دیا۔
"بھابی وہ آپ سے ایک کام ہے میرے ساتھ آئیں گی؟ بھائی اگر آپکو اعتراض نا ہو تو؟"۔     حرا کو مخاطب کرتے احد نے شہریار کا رخ کیا۔
"ارے احد کیسی غیروں والی باتیں کر رہے ہو؟ تمھیں حرا سے بات کرنے کیلیئے میری پرمشن کی ضرورت نہیں"۔    شہریار خفا ہوا۔
"تھینکس بھائی"۔    احد نے مسکراہٹ اچھالتے کہا۔
"میں تھوڑی دیر میں آتی ہوں"۔     حرا احد کے ہمراہ روم سے نکل گئی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"بھابی آپ کو اللہ کا واسطہ ہے آپ شیری بھائی کو بتا کر مزید پرابلم کریٹ نا کریں"۔    احد نے حرا کے سامنے ہاتھ جوڑتے التجا کی۔
"احد دیکھو ساری زندگی ڈر کر نہیں گزاری جا سکتی' وہ تمھیں ڈرا رہی ہے اور تم ڈر رہے ہو اسی بات کا تو وہ فائدہ اٹھا رہی ہے احد' لیکن تم یہ بات نہیں سمجھ رہے"۔     حرا نے احد کو کنونس کرنے کی ناکام کوشش کی۔
"بھابی آپ سمجھنے کی کوشش کریں فلوقت آپ کسی کو کچھ نہیں بتائیں گیں"۔    احد نے اصرار کیا۔
"احد شہریار مجھ سے پوچھ رہے تھے کم از کم انہیں تو۔۔۔"۔    
"اگر آپ نے ایسا کیا نا بھابی تو آپ شیری بھائی کا مرا منہ دیکھیں گیں"۔    احد نے لاچارگی اور مجبوری میں حرا کی بات کاٹی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
مشائم کو کال نا کرنے کی صورت میں اسے مشائم کی یاد آنے لگی تھی' مشائم کا خیال ذہن پہ سوار تھا جسکی بدولت وہ رات کے تیسرے پہر جاگ رہا تھا اور اپنے سامنے مشائم کی تصویر رکھی تھی۔
"مشو یار پتہ نہیں میں تمھیں ان دنوں اتنا مس کیوں کرتا ہوں؟ نجانے کب دوری کا یہ باب مکمل ہوگا اور تم میرے پاس ہوگی۔ ہر گزرتے لمحے، ہر گزرتے پل کے ساتھ میرے دل میں تمھاری محبت بڑھتی جاتی ہے۔ یہ دوری میرے دل میں بھڑکتی محبت کی آگ کو بڑھاوا دیتی ہے' آئی لو یو ۔۔ آئی لو یو سو مچ"۔     بات مکمل کرتے احد نے جونہی اپنے لبوں کو مشائم کی تصویر تک رسائی دی' اس دم کھڑکی کے پٹ زور سے کھلے جیسے کسی نے دھکے سے کھولیں ہوں۔
احد جو بیڈ کے تاج سے ٹیک لگائے ہوئے تھا فورا سے تصویر سائیڈ پہ رکھتے سیدھا ہوا۔
"حیرانگی کی بات ہے کہ تمھیں پتہ چل گیا' میں آئی ہوں"۔     گپت نسوانی آواز جوش میں آئی۔
"ظاہر ہے اتنی ۔۔۔ دھماکے دار انٹری جو ماری ہے"۔    پہلے کی نسبت آج احد کا خوف کم تھا۔
"تمھارے چہرے پہ اپنے لیئے خوف میں قلت دیکھ کر مجھے اچھا لگا"۔      مقابل میں دھیرے سے کہا گیا۔
ڈریسنگ ٹیبل کا سٹول اپنی جگہ سے کھسکتا بیڈ کے قریب آیا جیسے کسی نے گھسیٹ کر لایا ہو۔
"میں تم سے ایک بات کہوں؟"۔    احد نے ہچکچاتے کہا۔
"کہو"۔    احد کو آواز قریب تر محسوس ہوئی۔
"میں تمھیں دیکھنا چاہتا ہوں"۔     احد کی خواہش کے جواب میں ہنس دیا گیا۔
"میں نہیں چاہتی کہ تم مجھے دیکھ کے ڈر جاو کیونکہ تم مجھے دیکھ نہیں پایا گے"۔    
"کیا اتنی ڈراونی ہو؟"۔    احد نے تھوک نگلا۔
غیبی آواز ںے وحشت ناک قہقہ لگایا۔
"تمھاری یہ خواہش میں پوری کروں گی مگر مکمل نہیں"۔    
"مکمل نہیں' مطلب؟"۔    احد چونکا۔
"یہ تم نہیں سمجھو گے"۔   غیبی صدا نے ہولے سے کہا۔
"تنکا تنکا' ذرہ ذرہ 
ہے روشنی سے 
جیسے بھرا
تنکا تنکا' ذرہ ذرہ 
ہے روشنی سے 
جیسے بھرا 
اس دل میں ارماں ہوتے تو ہیں 
اس دل میں ارماں ہوتے تو ہیں 
بس کوئی سمجھے ذرا"۔  
گپت آواز نے گنگنانا شروع کیا۔
احد کے روم کی شان سے جلتی لائٹ اب مدھم ہو چکی تھی' اس مدھم روشنی میں بھی کھا جانے والا ہیبت ناک خوف برقرار تھا اور آخر میں لائٹ جلنے بجھنے لگی تھی۔
احد کے شریر میں پھریری دوڑ گئی۔
کھڑکی کے پاس نظر جاتے ہی احد کے ہوش اڑے اور پلکیں ساکت ہوئیں۔
سفید لباس میں ملبوس حسین لڑکی' سیاہ لمبے' گھنے بال جو کمر پہ پھیلے ہوئے تھے اور کمر سے حد درجہ نیچے تھے' آنکھیں چمک رہیں تھیں مگر نقوش واضح نہیں تھے اور لبوں پہ پراسرار وحشیانہ ہنسی تھی۔
احد آنکھیں جھپکنا بھول بیٹھا تھا۔
کچھ پل احد پہ اپنا جلوہ نمایاں کرتے وہ کھڑکی سے دوڑتی ہوئی باہر نکل گئی' روم کی لائٹ دوبارہ بحال ہوئی تو احد کی پلکوں میں ارتعاش پیدا ہوا۔
فی الفور بیڈ سے اٹھتے احد کھڑکی کی جانب گیا جہاں جھانک کر دیکھنے پہ ویرانی' خاموشی اور تاریکی کے علاوہ کچھ نا ملا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"اسلام و علیکم آنٹی"۔    حویلی کی انٹرنس پار کرتے مشائم ہال میں پہنچی جہاں راضیہ بیگم بیٹھیں تھیں۔
"وعلیکم السلام مشائم بیٹا کیسی ہو؟"۔    راضیہ بیگم نے جھکا سر اٹھایا۔
"میں ٹھیک ہوں آنٹی' آپ کیسی ہیں؟"۔    اپنے درمیان فاصلہ طے کرتے مشائم راضیہ بیگم کے قریب آئی۔
"میں ٹھیک ہوں بیٹا تمھارا پاوں کیسا ہے اب؟"۔    
"پاوں اب اللہ کا شکر ہے بہت بہتر ہے آنٹی"۔    راضیہ بیگم کی دائیں جانب رکھے چھوٹے صوفے پہ بیٹھتے اسنے جواب دیا۔
"چلو بیٹا یہ تو بہت اچھا ہوا"۔   راضیہ بیگم نے پرمسرت انداز میں کہا۔
"وٹ آ پلیزنٹ سرپرائز مشو"۔   احد جو تیزی میں سیڑھیاں اترتے انٹرنس کی جانب بڑھ رہا تھا' مشائم کو دیکھتے رک کر اس طرف آیا۔
"جی تمھیں تو فرصت نہیں ملتی سوچا خود ہی آ جاوں"۔   مشائم نے گلا کرنے کے سے انداز میں کہا۔
"ہاہاہاہا' بہت شکریہ اینی وے کس کے ساتھ آئی ہو؟"۔   احد نے قہقہ لگایا۔
"خود آئی ہوں"۔    احد کا قہقہ مشائم کیلیئے ناراضگی کا سبب بنا۔
"ارے مشائم تم کب آئی؟"۔    حرا بھی روم سے نکلتے اس طرف آئی۔
"بس بھابی ابھی ہی آئی ہوں"۔    صوفے سے اٹھتے مشائم حرا کے گلے لگی۔
"مشو یہ تو غلط بات ہے"۔    احد نے لب بھینچے۔
"کیا غلط ہے؟"۔    مشائم نے دائیں آبرو اوپر کو کیا؟
"یہی کہ مجھے سلام تک نہیں کیا اور بھابی کے گلے لگ گئی"۔    
"احد بیٹا"۔    راضیہ بیگم نے آنکھیں نکالیں۔
"اچھا ماما مذاق کر رہا تھا"۔    احد کو کھلکھلا کر ہنستے دیکھ مشائم کے لبوں پہ بھی مسکراہٹ رینگی۔  "ماما آپکی عمر ہوگئی ہے اب آرام کرنے کی مہربانی ہے آپ آرام کریں اور اپنی جگہ کسی اور کو دے دیں"۔   خیال آتے ہی احد فورا سے سنجیدہ ہوا۔
"کیا مطلب؟"۔   راضیہ بیگم نے حیرت سے کہا۔
"مطلب یہ کہ ایک اور بہو لے آئیں"۔    احد نے کالر سیٹ کرتے نظر چرا لی۔
"او تو آپکو شادی کرنی ہے؟"۔    حرا نے احد کا دائیاں کان کھینچا۔
"ظاہر ہے بھابی اب ساری عمر کنوارہ تو نہیں رہنا میرا معصوم دل بھی کرتا ہے تھوڑی سی شادی کرنے کو' میں بھی انسان ہوں آخر کب تک ایسا چلے گا؟کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟"۔    احد نے ناراضگی میں شانے اچکائے۔
"اچھا جو مشی کہے گی وہی ہوگا"۔    راضیہ بیگم نے مشائم کی جانب دیکھا جو احد کے مقابل کھڑی نگاہیں جھکا گئی اور لال لالی اسکے رخسار پہ آ جمی۔
"مشو کی جرات نہیں نا کرنے کی 'اگر نا کی تو میں کسی اور سے شادی کر لوں گا"۔    احد نے شرارت سے نظریں پھیر لیں۔
احد کی بات پہ مشائم ہکا بکا اسے دیکھنے لگی اور ناراضگی میں' خاموشی سادھے انٹرنس کی جانب گھومی۔
راضیہ بیگم اور حرا نے ہنستے ہوئے احد کو دیکھا جو مشائم کی پشت پہ نظر ڈالے کھڑا مسکرا رہا تھا پھر ہاتھ کے اشارے سے مشائم کے پیچھے ہو لیا۔
مشائم کار پورچ کی طرف قدم رکھ رہی تھی احد بھی آہستہ آہستہ اسکے پیچھے چلنے لگا۔
جونہی مشائم نے کار کے دروازے پہ ہاتھ رکھا احد نے اسکا ہاتھ پکڑتے اسے اپنی طرف کیا۔
"چھوڑو مجھے"۔    مشائم کی آنکھ میں آنسو اتر آئے تھے۔
"نہیں چھوڑ سکتا"۔    احد کے چہرے سے ہنوز مسکراہٹ امڈ رہی تھی۔
"احد چھوڑو مجھے گھر جانا ہے"۔    مشائم نے آنکھیں پھیر لیں۔
"کہیں نہیں جا رہی تم' یہاں آ کر جو سرپرائز دیا ہے اب جا کر اسکی واٹ نا لگاو"۔    بولتے ہی اسنے مشائم کا دوسرا ہاتھ تھاما۔
"مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی"۔   خفا انداز میں بھی مشائم کے چہرے پہ طفولیت لوٹ مار مچائے ہوئے تھی۔
"مجھے تو کرنی ہے"۔   احد کے لب مستقل مسکرا کر مشائم کی ناراضگی کو طول دے رہے تھے۔
"تو' جس سے شادی کرنی ہے نا اسی سے کرو"۔    مشائم نے احد کی آنکھوں میں دیکھتے کہا۔
"اسی سے تو کر رہا ہوں ان فیکٹ کرنے کی کوشش میں ہوں' یار تم مجھے اتنی کیوٹ لگتی ہو جب یوں مجھ سے ناراض ہوکر چلی جاتی ہو اور بات نہیں کرتی۔ مجھے تمھیں یوں منانا بہت اچھا لگتا ہے' مجھے تمھیں تنگ کرنے میں مزہ آتا ہے"۔    اب کی بار احد کی بتیسی نمایاں ہوئی۔
"اسکا مطلب یہ تو نہیں کہ تم کسی اور سے شادی کی بات کرو اور میں کچھ نا کہوں' مجھے تنگ کرنے کی غرض سے کیا تم کسی سے بھی شادی کر لو گے؟؟"۔    مشائم نے غصے میں کہا لیکن آنسوؤں کی آڑ میں اسکی آواز دھیمی ہو گئی تھی۔
"کسی سے نہیں صرف اور صرف مشی سے' چلو اب اندر چلو شاباش"۔   مشائم کا ہاتھ تھامے احد حویلی کی اندرونی جانب بڑھنے لگا۔
بلا وساطت ہوا کی رفتار تیز ہو گئی تھی یوں محسوس ہونے لگا جیسے ہوا کی لہریں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہوں جن سے پیدا ہونے والی آواز وحشت ناک معلوم ہو رہی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
حرا، نگینہ بیگم، احد اور مشائم حویلی کے لان میں بیٹھے گفت و شنید میں محو تھے۔
"نبیل کی کال ہے"۔  فون پہ رنگ بجی تو احد نے سامنے ٹیبل پہ رکھا فون اٹھا کر دیکھا۔
"ہیلو اسلام و علیکم"۔   چیئر سے اٹھتے احد سائیڈ پہ ہو لیا۔
"مشائم یار تم چپ کیوں ہو؟ باتیں کرو نا"۔    حرا نے اپنے مقابل بیٹھی مشائم کو مخاطب کیا جو چپ بیٹھی احد کو دیکھ رہی تھی۔
"ج جی بھابی"۔    حرا کی آواز پہ وہ متوجہ ہوئی۔
"کیا ہوا ہے؟ از ایوری تھنگ آل رائٹ؟"۔    حرا نے کنفرم کیا۔
"جی بھابی سب ٹھیک ہے"۔    مشائم نے مسکراہٹ سے کہا۔
"میں سمعان میاں سے بات کرتی ہوں کہ اب میرے دوسرے نواسے کو بھی بیاہ دے"۔    نگینہ بیگم نے شرارت سے حرا کو دیکھا جو انکی بائیں جانب بیٹھی تھی۔
"صحیح بات کی ہے نانو جان ویسے بھی اپنی شادی کے بعد کسی کی شادی نہیں ہوئی جو بندہ اینجوائے کر سکے"۔    حرا نے نگینہ بیگم کی تائید کی۔
"مشائم' عامر کے گھر میں ہماری ہی تو امانت ہے"۔   نگینہ بیگم نے کہا تو مشائم شرما دی۔
"بالکل"۔    حرا ہنس دی۔   "اچھا نانو آپ لوگ باتیں کریں میں آپ لوگوں کیلیئے چائے بنا کر لاتی ہوں"۔    حرا چیئر سے اٹھتے حویلی کی اندرونی جانب جاتی راہداری پہ چلنے لگی۔
جونہی حرا انٹرنس سے چند قدم پہلے پہنچی' منڈیر پہ رکھا گملا ہوا میں جھولنے لگا۔ احد اس طرف جیسے ہی گھوما اسکی نظر گملے پہ گئی اور آنکھیں حیرت سے باہر ابھریں۔
"حرا بھابی"۔     فون زمین پہ پھینکتا احد حرا کی جانب لپکا۔
حرا کر دھکا دیتے احد نے سائیڈ پہ کیا۔
وہ گملا جو حرا پہ پھینکا گیا تھا' احد کے بائیں شانے پہ آ گرا تھا۔ سفید شرٹ کے باعث احد کا رستا خون واضح نظر آنے لگا تھا۔
احد"۔    مشائم چلاتی ہوئی چیئر سے اٹھتے احد کی جانب دوڑی۔
نگینہ بیگم بھی اسکے متعاقب چیئر سے اٹھیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

   0
0 Comments